Tuesday, 10 September 2013

شام کے بحران کو لبنان تک پھیلانے کی سازش/ شام پر ممکنہ حملے کے خلاف بڑھتے احتجاجات

شام کے بحران کو لبنان تک پھیلانے کی سازش/ شام پر ممکنہ حملے کے خلاف بڑھتے احتجاجات
شام کے بحران میں شدت آنے کے ساتھ ہی اس کا دائرہ لبنان تک پھیلانے کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہو گيا ہے۔ لبنان کے روزنامہ الاخبار نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب حزب اللہ لبنان کے ساتھ اپنی دشمنی پر اصرار کرتے ہوئے شام کے بحران کو لبنان تک منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی عرب نے لبنان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کسی بھی سازش سے دریغ نہیں کیا ہے کیونکہ شام اور لبنان علاقے میں مزاحمت کا محور ہونے کی حیثیت سے دشمنوں کے نشانے پر ہیں۔
شام کے بحران کو لبنان تک منتقل کرنے کی کوششوں کے بعد لبنان کے صدر میشل سلیمان نے ملک میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے ملک کی فوجی طاقت میں اضافے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان میں دہشت گردانہ بم دھماکوں کا مقصد لبنانیوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو نقصان پہنچانا اور ان کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنا ہے۔
شام میں بحران اور جنگ کے بعد شام کی سرحد سے ملحقہ لبنان کے علاقوں خاص طور پر طرابلس میں حالیہ مہینوں اور ہفتوں کے دوران جھڑپیں اور بم دھماکے ہوئے ہیں جن میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ پندرہ اگست دو ہزار تیرہ کو بیروت کے جنوب میں ضاحیہ علاقے میں ایک کار بم دھماکے میں پچیس افراد ہلاک اور تین سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد لبنان کے مفتی اعظم محمد رشید قبانی نے اس کا ذمہ دار صیہونی حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ لبنان میں دہشت گردی کے ان واقعات سے صیہونی حکومت کا مقصد لبنانی عوام کے درمیان اختلاف ڈالنا اور لبنان کو خانہ جنگي کی آگ میں جھونکنا ہے۔
لبنان میں شام پر امریکہ کے ممکنہ فوجی حملے کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لبنان کے صدر اور وزیر خارجہ سمیت اعلی ملکی حکام نے شام پر فوجی حملے کے بارے میں کئی بار خبردار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس اقدام کے علاقے خاص طور پر لبنان پر برے اور منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکہ شام پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا بےبنیاد الزام لگا کر اس پر فوجی حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے ابھی تک کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے دعوے کے بارے میں کوئی رپورٹ جاری نہیں کی ہے۔
حزب اللہ لبنان اور امل تحریک نے ایک مشترکہ بیان میں علاقے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کی توسیع پسندی کے خلاف مزاحمت کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ علاقے میں مزاحمت کو جاری رکھ کر امریکہ اور صیہونی حکومت کو اس کے ناجائز مقاصد حاصل نہیں کرنے دیں گے۔
حزب اللہ لبنان کی مجلس عاملہ کے نائب سربراہ شیخ نبیل قاووق نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ حزب اللہ علاقے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے مفادات کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور وہ لبنان کے خلاف کسی بھی بیرونی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔
شام پرممکنہ حملے پراحتجاج
شام پرامریکہ کےفوجی حملے کا امکان بڑھنے کے ساتھ ہی امریکہ اور اس کے باہر امن پسندگروہوں کی سرگرمیاں بڑہ گئی ہیں۔اتوار کے دن جنگ کے سیکڑوں مخالفین نے وہائٹ ہاؤس اور کانگریس کےسامنے احتجاجی مظاہرے کئے۔مظاہرین نے شام پر امریکہ کےفوجی حملےکےلئے انجام دیئے جانے والے اقدامات کاسلسلہ روکنے کامطالبہ کیا۔
وہائٹ ہاؤس کا دعوی ہے کہ اکیس اگست کو مشرقی دمشق پر ہونے والے کیمیاوی حملے میں حکومت شام کا ہاتھ ہے اور اسی بنا پر وہ اس ملک پرحملے کی زمین ہموارکررہا ہے۔
امریکی صدر اوبامہ اور ان کےمشیروں کے اس دعوے کےبرخلاف رائے عامہ شام پر ہرطرح کےحملے کےخلاف ہے ۔گذشتہ دنوں انجام پانےوالے سروے سےثابت ہوتا ہے کہ ہردس امریکیوں میں سے چھہ امریکی اس طرح کےاقدام کےخلاف ہيں۔جبکہ بارہ سال پہلے تقریبا دوتہائی امریکی عوام افغانستان پرحملے کی حمایت کر رہے تھےاور عراق جنگ میں بھی امریکی حکومت کو پچاس فیصد سےزیادہ امریکیوں کی حمایت حاصل تھی البتہ دونوں جنگ امریکی معاشرے میں نفرت پرمنتج ہوئی یہاں تک کہ اس وقت کی ریپبلکن پارٹی کی حکومت کو افغانستان اورعراق میں جنگ شروع کرنے کےجرم میں وہائٹ ہاؤس سےاپنا بوریا بستر سمیٹنا پڑا۔
اس وقت ڈیموکریٹ پارٹی اورخودامریکی صدر ایسےعالم میں شام پرحملے کی تیاری کررہے ہيں کہ جنگ مخالف مظاہرے شروع ہوچکے ہيں اوراس وقت جنگ مخالف تنظیموں کےفعال ہونے کی وجہ خود اکیس اگست کے اصلی واقعے کے سلسلے میں شک وشبہ پایا جانا اور ہرطرح کےفوجی اقدام سے بے انتہاخستگی ہے۔ سروے رپورٹوں سےپتہ چلتا ہے کہ ابھی امریکی عوام کی بڑی تعداد مشرقی دمشق میں ہونے والے کیمیاوی حملے میں حکومت شام کےملوث ہونے کےبارے میں پایےجانے والے شکوک و شبہات ہیں اور اکثر امریکی تنظیموں اورگروہوں کا خیال ہے کہ اگر یہ مفروضہ ثابت بھی ہو جائے تو بھی امریکہ کو بین الاقوامی پولیس کی طرح میدان میں نہيں کودنا چاہئے۔ اس گروہ کی نگاہ میں شام میں جوکچہ ہورہا ہے وہ صرف جنگی جرائم اور ممنوعہ ہتھیاروں کااستعمال نہيں ہے اور اگر وہائٹ ہاؤس خود کو اس کے مقابلے کا پابند سمجھتا ہے تو اسے اس جیسے دوسرے واقعات کےخلاف بھی اقدام کرناچاہئے۔جبکہ بنیادی طور پر شام میں جنگ امریکی سرزمین، شہریوں یا امریکی مفادات پر حملے سےتعبیرنہيں کی جاسکتی کہ جس کا مقابلہ کرنے کےلئے امریکی فوجیوں کا خون بہایا جائے یا امریکی ٹیکس دہندگان کاپیسہ برباد کیاجائے۔جبکہ دس سال کی جنگ، لشکرکشی، جانی نقصان، اور مہم جوئی نے ملت امریکہ کو بری طرح تھکا کر رکھ دیا ہے۔ گیارہ ستمبر دوہزارایک کےبعد سے اب تک امریکہ، دنیا پردوبڑی جنگ اورمتعدد چھوٹی چھوٹی فوجی کاروائياں انجام دے چکا ہے ان جنگوں پر براہ راست ایک ٹریلین سے زیادہ اور بالواسطہ طور پر تین ٹریلین ڈالر خرچ ہوچکے ہيں۔ البتہ اگر افغانستان اور عراق پر انجام پانے والی لشکرکشی اتنی بڑی تعداد میں جانی اور مالی نقصان کے باوجود امریکہ کے لئے کامیابی شمار ہوتی تو رائےعامہ کسی حد تک اس کا ساتھ دیتی۔ لیکن کم سےکم افغانستان کےبارے میں تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ خوشی منانے کے لئےکچہ نہيں ہے۔ گذشتہ جنگوں سے حاصل ہونےوالے تجربات کے پیش نظر اس وقت امن کارکن اس کوشش میں ہيں کہ میزائلوں کی فائر سے پہلے امریکی کانگریس اوروہائٹ ہاؤس میں فیصلہ لینے والوں پراثرانداز ہوں کیونکہ اگر جنگ کےشیدائیوں نےشام ميں جنگ شروع کردی تو پھر جنگ کوختم کرنا صرف انھیں کےبس میں نہ ہوگا۔اس صورت میں بھی آخری شکست شہریوں بالخصوص امریکی شہریوں کی ہوگي۔

No comments:

Post a Comment

Subscribe via email