:تکفیری دہشت گردوں کی مسلسل شکست
مغرب و اور بعض عرب قوتوں نے اس مقصد کے
حصول کیلئے ہر ممکن کوشش کی اور حتی عرب لیگ میں شام کی رکنیت بھی ختم کر
ڈالی اور بعض ممالک نے شام کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بھی منقطع کر لئے۔
لیکن اس مغربی و عربی گٹھ جوڑ کے مقابلے میں شام کی حکومت اور قوم نے
انتہائی استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں اسرائیل کی
غاصب صہیونیستی حکومت کی مرکزیت میں دسیوں ممالک سے شام کی طرف امڈ آنے
والے تکفیری دہشت گردوں کو پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ تکفیری دہشت گرد دو بڑے گروہوں یعنی "فری سیرین آرمی" اور "النصرہ فرنٹ" کی صورت میں شام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان تکفیری دہشت گردوں کی مسلسل شکست نے ان کے مغربی و عرب حامیوں کو اس نتیجے پر پہنچا دیا ہے کہ ان کی تمام منصوبہ بندیاں اور کوششیں بے فائدہ ثابت ہوئی ہیں اور مسلح دہشت گرد گروہوں کے خلاف شام کی حتمی فتح اور کامیابی بہت نزدیک ہے۔ یہ خبر انتہائی تیزی سے خطے کا توازن اسرائیل مخالف اسلامی مزاحمتی بلاک کے حق میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور خطہ ایک ایسی سیاسی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے جس گریز کبھی بھی ممکن نہ ہوگا۔
یہ امر عالمی سطح پر امریکہ اور اس کے حامیوں کی کمزوری کو ظاہر کر تا ہے۔ البتہ اس وقت تک بھی شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گردوں کی حامی حکومتیں ان کی شکست کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات سے محفوظ نہیں رہیں۔ مثال کے طور پر قطر کے سابق امیر جنہوں نے شام کے مسلح دہشت گروہوں کی حمایت میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور اپنی جگہ اپنے جوان ولیعہد کو دے دی۔ اسی طرح ترکی میں رجب طیب اردوغان بھی شدید سیاسی مشکلات سے دوچار ہو چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے عرب اور مغربی اتحادیوں نے اب تک اس حقیقت کو قبول نہیں کیا کہ اعراب اور اسرائیل کے درمیان انجام پانے والی گذشتہ جنگوں کے برخلاف جن میں امریکی کی جانب سے وسیع پیمانے پر انٹیلی جنس اور فوجی امداد کے بل بوتے پر عرب ممالک پر حملہ کرکے اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا، اس بار ان کا مقابلہ اسلامی مزاحمتی بلاک سے ہے جس نےانقلاب اسلامی ایران کو اپنا رول ماڈل بنا رکھا ہے۔
اسلامی مزاحمتی بلاک تھاجو اسرائیل کے مدمقابل تمام معرکوں خصوصا22 روزہ جارحیت، 33 معرکہ آرائی اور 8 روزہ جنگ میں کامیابی سے ہمکنار ہوا اور شام کا محاذ بھی اسی اصول کی پیروی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
عرب اور مغربی شیطانی گٹھ جوڑ کو اب تک یہ دردناک خبر بھی قبول کر لینی چاہئے کہ شام، بیرونی حمایت یافتہ مسلح دہشت گردگروہوں کے مقابلے میں حتمی کامیابی سے ہمکنار ہوا چاہتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے سے یہ شیطانی قوتیں اپنی گذشتہ حماقتوں اور غلطیوں کے تکرار یعنی خطے میں ایک نئی جنگ کے آغاز سے بچ سکتی ہیں۔ کیونکہ اس نئی جنگ کے آغاز کی صورت میں امریکہ، مغرب اور اس کے مقامی عرب اتحادیوں کو ایسی زک پہنچے گی جس کے نتیجے میں مشرق وسطی جیسے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل خطے میں ان کا سیاسی کردار اور اثرورسوخ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا اور یہ امر بین الاقوامی سطح پر نیو ورلڈ آرڈر میں بنیادی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن جائے گا۔
اس نئے ورلڈ آرڈر کے معرض وجود میں آنے کے بعد امریکہ کے زیرتسلط بین الاقوامی اداروں خصوصا اقوام متحدہ اور سیکورٹی کونسل میں اصلاحات کی راہ بھی فراہم ہو جائےگی جس کے نتیجے میں مغربی قوتیں اپنے پاس موجود غیرعادلانہ پاورز کی بدولت اقوام عالم پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی صلاحیت بھی کھو دیںگی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور اس کے مغربی و عربی اتحادی شام حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال جیسے اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف جھوٹے الزامات اور زہریلی پروپیگنڈے کے ذریعے خطے کی صورتحال کو اپنے حق میں تبدیل نہیں کر سکتے۔
اگر عرب اور مغربی گٹھ جوڑ کی جانب سے شام کے خلاف فوجی کاروائی کی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو انہیں بہت جلد اپنے اس عمل پر شرمندگی اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ شام پر فوجی حملے کے فورا بعد اسرائیل کی غاصب صہیونیستی حکومت جس کے تحفظ کیلئے یہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے انتہائی شدید خطرات سے دوچارہوتا نظر آئے گی۔
امریکہ اور اس کے مغربی و عرب پٹھو شام کے خلاف جنگ کے آغاز سے شام حکومت کے خلاف نبردآزما اپنے حمایت یافتہ مسلح دہشت گرد گروہوں کی شکست کو فتح میں تبدیل نہیں کر سکتے کیونکہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو یہ شیطانی گٹھ جوڑ دو سال تک ہاتھ پر پاتھ رکھ کر نہ بیٹھا ہوتا۔
شام کے بارے میں امریکہ اور اس کے مغربی و عرب اتحادیوں کی نظر میں واحد چارہ یہی تھا کہ اپنے حمایت یافتہ دہشت گرد تکفیری گروہوں کو شام کے خلاف سرگرم کر دیا جائے جس کے نتیجے میں خطے میں وسیع پیمانے پر ایک مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ شروع ہو جائے۔ انہوں نے یہ راستہ بھی آزما لیا ہے جس میں انہیں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب وہ غصے اور انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں اور جنون آمیز رویئے اپنا رہے ہیں۔
شام میں حکومت مخالف مسلح دہشت گرد عناصر کی شکست امریکہ اور اس کے مغربی و عرب پٹھووں کیلئے ایک خوفناک خواب بن چکا ہے جس نے ان کی نیندیں حرام کر ڈالی ہیں۔ انہیں شام کی حکومت اور قوم کے خلاف سازشوں کی سزا ضرور ملے گی جو خطے میں اور بین الاقوامی سطح پر طاقت کے مراکز کھونے اور اپنے اتحادی ممالک کو ہاتھ سے گنوانے کی صورت میں ظاہر ہوگی۔
امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک اپنی گذشتہ تسلط پسندانہ اور متکبرانہ پالیسیوں کے باعث آج شدیدترین نظریاتی، سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار نظر آتے ہیں جس کے باعث وہ ایک لمبی جنگ کے ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے۔ اور اگر اپنی غلطیوں کی وجہ سے ایک ایسی جنگ کی دلدل میں پھنس گئے جہاں ان کی مخالف قوتیں بہت زیادہ جنگی جذبے سے سرشار ہیں تو یقینا انہیں مزید ذلت اور زیادہ بڑی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ تکفیری دہشت گرد دو بڑے گروہوں یعنی "فری سیرین آرمی" اور "النصرہ فرنٹ" کی صورت میں شام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان تکفیری دہشت گردوں کی مسلسل شکست نے ان کے مغربی و عرب حامیوں کو اس نتیجے پر پہنچا دیا ہے کہ ان کی تمام منصوبہ بندیاں اور کوششیں بے فائدہ ثابت ہوئی ہیں اور مسلح دہشت گرد گروہوں کے خلاف شام کی حتمی فتح اور کامیابی بہت نزدیک ہے۔ یہ خبر انتہائی تیزی سے خطے کا توازن اسرائیل مخالف اسلامی مزاحمتی بلاک کے حق میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور خطہ ایک ایسی سیاسی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے جس گریز کبھی بھی ممکن نہ ہوگا۔
یہ امر عالمی سطح پر امریکہ اور اس کے حامیوں کی کمزوری کو ظاہر کر تا ہے۔ البتہ اس وقت تک بھی شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گردوں کی حامی حکومتیں ان کی شکست کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات سے محفوظ نہیں رہیں۔ مثال کے طور پر قطر کے سابق امیر جنہوں نے شام کے مسلح دہشت گروہوں کی حمایت میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور اپنی جگہ اپنے جوان ولیعہد کو دے دی۔ اسی طرح ترکی میں رجب طیب اردوغان بھی شدید سیاسی مشکلات سے دوچار ہو چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے عرب اور مغربی اتحادیوں نے اب تک اس حقیقت کو قبول نہیں کیا کہ اعراب اور اسرائیل کے درمیان انجام پانے والی گذشتہ جنگوں کے برخلاف جن میں امریکی کی جانب سے وسیع پیمانے پر انٹیلی جنس اور فوجی امداد کے بل بوتے پر عرب ممالک پر حملہ کرکے اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا، اس بار ان کا مقابلہ اسلامی مزاحمتی بلاک سے ہے جس نےانقلاب اسلامی ایران کو اپنا رول ماڈل بنا رکھا ہے۔
اسلامی مزاحمتی بلاک تھاجو اسرائیل کے مدمقابل تمام معرکوں خصوصا22 روزہ جارحیت، 33 معرکہ آرائی اور 8 روزہ جنگ میں کامیابی سے ہمکنار ہوا اور شام کا محاذ بھی اسی اصول کی پیروی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
عرب اور مغربی شیطانی گٹھ جوڑ کو اب تک یہ دردناک خبر بھی قبول کر لینی چاہئے کہ شام، بیرونی حمایت یافتہ مسلح دہشت گردگروہوں کے مقابلے میں حتمی کامیابی سے ہمکنار ہوا چاہتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے سے یہ شیطانی قوتیں اپنی گذشتہ حماقتوں اور غلطیوں کے تکرار یعنی خطے میں ایک نئی جنگ کے آغاز سے بچ سکتی ہیں۔ کیونکہ اس نئی جنگ کے آغاز کی صورت میں امریکہ، مغرب اور اس کے مقامی عرب اتحادیوں کو ایسی زک پہنچے گی جس کے نتیجے میں مشرق وسطی جیسے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل خطے میں ان کا سیاسی کردار اور اثرورسوخ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا اور یہ امر بین الاقوامی سطح پر نیو ورلڈ آرڈر میں بنیادی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن جائے گا۔
اس نئے ورلڈ آرڈر کے معرض وجود میں آنے کے بعد امریکہ کے زیرتسلط بین الاقوامی اداروں خصوصا اقوام متحدہ اور سیکورٹی کونسل میں اصلاحات کی راہ بھی فراہم ہو جائےگی جس کے نتیجے میں مغربی قوتیں اپنے پاس موجود غیرعادلانہ پاورز کی بدولت اقوام عالم پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی صلاحیت بھی کھو دیںگی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور اس کے مغربی و عربی اتحادی شام حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال جیسے اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف جھوٹے الزامات اور زہریلی پروپیگنڈے کے ذریعے خطے کی صورتحال کو اپنے حق میں تبدیل نہیں کر سکتے۔
اگر عرب اور مغربی گٹھ جوڑ کی جانب سے شام کے خلاف فوجی کاروائی کی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو انہیں بہت جلد اپنے اس عمل پر شرمندگی اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ شام پر فوجی حملے کے فورا بعد اسرائیل کی غاصب صہیونیستی حکومت جس کے تحفظ کیلئے یہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے انتہائی شدید خطرات سے دوچارہوتا نظر آئے گی۔
امریکہ اور اس کے مغربی و عرب پٹھو شام کے خلاف جنگ کے آغاز سے شام حکومت کے خلاف نبردآزما اپنے حمایت یافتہ مسلح دہشت گرد گروہوں کی شکست کو فتح میں تبدیل نہیں کر سکتے کیونکہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو یہ شیطانی گٹھ جوڑ دو سال تک ہاتھ پر پاتھ رکھ کر نہ بیٹھا ہوتا۔
شام کے بارے میں امریکہ اور اس کے مغربی و عرب اتحادیوں کی نظر میں واحد چارہ یہی تھا کہ اپنے حمایت یافتہ دہشت گرد تکفیری گروہوں کو شام کے خلاف سرگرم کر دیا جائے جس کے نتیجے میں خطے میں وسیع پیمانے پر ایک مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ شروع ہو جائے۔ انہوں نے یہ راستہ بھی آزما لیا ہے جس میں انہیں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب وہ غصے اور انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں اور جنون آمیز رویئے اپنا رہے ہیں۔
شام میں حکومت مخالف مسلح دہشت گرد عناصر کی شکست امریکہ اور اس کے مغربی و عرب پٹھووں کیلئے ایک خوفناک خواب بن چکا ہے جس نے ان کی نیندیں حرام کر ڈالی ہیں۔ انہیں شام کی حکومت اور قوم کے خلاف سازشوں کی سزا ضرور ملے گی جو خطے میں اور بین الاقوامی سطح پر طاقت کے مراکز کھونے اور اپنے اتحادی ممالک کو ہاتھ سے گنوانے کی صورت میں ظاہر ہوگی۔
امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک اپنی گذشتہ تسلط پسندانہ اور متکبرانہ پالیسیوں کے باعث آج شدیدترین نظریاتی، سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار نظر آتے ہیں جس کے باعث وہ ایک لمبی جنگ کے ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے۔ اور اگر اپنی غلطیوں کی وجہ سے ایک ایسی جنگ کی دلدل میں پھنس گئے جہاں ان کی مخالف قوتیں بہت زیادہ جنگی جذبے سے سرشار ہیں تو یقینا انہیں مزید ذلت اور زیادہ بڑی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
No comments:
Post a Comment