بندر بن سلطان بن عبدالعزیز کو نیا صدمہ، شہزادوں نے شکایت کردی
رپورٹ کے مطابق سعودی مجلس امن کے سیکریٹری اور آل سعود کی
انٹیلجنس و سیکورٹی سروس کے سربراہ بندر بن سلطان بن عبدالعزیز آل سعود کے
اقدامات اور ناکامیوں کے بعد 17 نوجوان سعودی شہزادوں نے اس کی کارکردگی کو
آل سعود کی عظیم شکست کا سبب گردانتے ہوئے، اس سعودی اہلکار کے خلاف
تحریری شکایت سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کے پاس بھجوائی
ہے۔
اس شکایت نامے میں کہا گیا ہے کہ بندر بن سلطان حکومت شام کا تختہ الٹنے میں دہشت گردوں کی حمایت میں ناکام ہوچکے ہیں؛ امریکہ کو اکسانے اور شام پر عسکری یلغار کرانے میں شکست کھا چکے ہیں اور علاقائی طور پر آل سعود کی بدنامی اور رسوائی کا سبب بنے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت شام کا تختہ نہیں الٹ سکے ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی بادشاہ طویل عرصے سے علیل ہیں جبکہ ولیعہد سلمان بن عبدالعزیز بھی بوڑھے اور بیمار ہیں جس کی وجہ سے سعودی شہزادوں کی تحریر شکایت بادشاہ کے دفتر کے سربراہ کے پاس پہنچائی گئی ہے اور وہ جو فیصلہ کریں گے وہی آل سعود کا آخری فیصلہ سمجھا جائے گا۔
اگرچہ بندر بن سلطان کنیز کی فرزند ہونے کے ناطے کسی صورت میں سعودی بادشاہت کے امیدوار نہیں ہوسکتے لیکن مجموعی طور پر اس کی کارکردگی آل سعود کے لئے بہت اہم رہی ہے۔ علاقے میں اگر ایک طرف سے تیز رفتار تبدیلیاں جاری ہیں تو بندر بن سلطان ہمیشہ ان تبدیلیوں میں مغربی اور صہیونی محاذ میں فعال رہے ہیں اور خطے کے عرب ممالک ـ شام اور عراق ـ میں خونی کی ہولی کھیل رہے ہیں جبکہ جنوب ایشیا میں بھی اس کے خونی قدموں کے نشان بخوبی نظر آرہے ہیں گوکہ وہ عراق میں امریکہ کو باقی رکھنے اور شام کو امریکی حملے کا نشانہ بنوانے میں ناکام رہے ہیں اور یہ بات اسرائیل اور امریکہ کے وفادار سعودی شہزادوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔
بندر بن سلطان 1983 سے 2005 (22 سال کے عرصے تک) واشنگٹن میں آل سعود کے سفیر تھے، واپسی پرکچھ عرصے تک باپ کی ولیعہدی کے دور میں، ان پر حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگا اور کچھ عرصہ لاپتہ رہے اور 2010 میں دوبارہ ظاہر ہوئے جس کے بعد نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری اور 19 جولائی 2012 کو عبداللہ بن عبدالعزیز کی طرف سے سعودی انٹیلجنس ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل بنے۔
کوئی بھی عرب حکمران اور کوئی بھی سفیر بندر بن سلطان کی طرح امریکیوں کے ہاں با اثر نہیں ہے۔ اس شخص نے اپنی سفارتکاری کا آغاز 1978 سے کیا تھا جب انھوں نے امریکی کانگریس کو ترغیب دلائی کہ وہ آل سعود کے ساتھ ایف پندرہ لڑاکا طیاروں کی فروخت کا بل منظور کرے اور یہ بل منظور ہوا۔
بندر نے اپنی سفارتکاری کے دوران 5 امریکی صدور، 10 وزرائے خارجہ، 11 نیشنل سیکورٹی کے مشیروں اور کانگریس کے 16 اجلاسوں اور سینکڑوں امریکی سیاستدانوں کے ساتھ رابطہ برقرار کیا۔
شہزادہ بندر بن سلطان کے تعلقات امریکی صدور میں جارج بش (father) اور جارج واکر بش (son) سے قریبی رابطہ برقرار کیا یہاں تک کہ انہیں Bandar Bush کہا جانے لگا۔ جیمز بیکر، ڈک چینی، جنرل کالین پاول اور بش انتظامیہ کے اعلی اہلکاروں سے ان کا رابطہ سفارتی حدود سے کہیں زیادہ قریبی تھا۔
بندر بش اپنی سفارت کے دوران بغیر کسی رکاوٹ کے وائٹ ہاؤس میں آیا جایا کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے عرب سفیر تھے جو حتی امریکی وزارت خارجہ کی سیکورٹی تفصیلات تک رسائی رکھتے تھے۔ اور امریکیوں نے ان کو یہ سہولت اس لئے دی تھی کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے لئے خود امریکیوں سے بھی زیادہ مخلص تھے۔ ورنہ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکی کسی پر اعتماد نہیں کیا کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شکایت نامے میں کہا گیا ہے کہ بندر بن سلطان حکومت شام کا تختہ الٹنے میں دہشت گردوں کی حمایت میں ناکام ہوچکے ہیں؛ امریکہ کو اکسانے اور شام پر عسکری یلغار کرانے میں شکست کھا چکے ہیں اور علاقائی طور پر آل سعود کی بدنامی اور رسوائی کا سبب بنے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت شام کا تختہ نہیں الٹ سکے ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی بادشاہ طویل عرصے سے علیل ہیں جبکہ ولیعہد سلمان بن عبدالعزیز بھی بوڑھے اور بیمار ہیں جس کی وجہ سے سعودی شہزادوں کی تحریر شکایت بادشاہ کے دفتر کے سربراہ کے پاس پہنچائی گئی ہے اور وہ جو فیصلہ کریں گے وہی آل سعود کا آخری فیصلہ سمجھا جائے گا۔
اگرچہ بندر بن سلطان کنیز کی فرزند ہونے کے ناطے کسی صورت میں سعودی بادشاہت کے امیدوار نہیں ہوسکتے لیکن مجموعی طور پر اس کی کارکردگی آل سعود کے لئے بہت اہم رہی ہے۔ علاقے میں اگر ایک طرف سے تیز رفتار تبدیلیاں جاری ہیں تو بندر بن سلطان ہمیشہ ان تبدیلیوں میں مغربی اور صہیونی محاذ میں فعال رہے ہیں اور خطے کے عرب ممالک ـ شام اور عراق ـ میں خونی کی ہولی کھیل رہے ہیں جبکہ جنوب ایشیا میں بھی اس کے خونی قدموں کے نشان بخوبی نظر آرہے ہیں گوکہ وہ عراق میں امریکہ کو باقی رکھنے اور شام کو امریکی حملے کا نشانہ بنوانے میں ناکام رہے ہیں اور یہ بات اسرائیل اور امریکہ کے وفادار سعودی شہزادوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔
بندر بن سلطان 1983 سے 2005 (22 سال کے عرصے تک) واشنگٹن میں آل سعود کے سفیر تھے، واپسی پرکچھ عرصے تک باپ کی ولیعہدی کے دور میں، ان پر حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگا اور کچھ عرصہ لاپتہ رہے اور 2010 میں دوبارہ ظاہر ہوئے جس کے بعد نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری اور 19 جولائی 2012 کو عبداللہ بن عبدالعزیز کی طرف سے سعودی انٹیلجنس ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل بنے۔
کوئی بھی عرب حکمران اور کوئی بھی سفیر بندر بن سلطان کی طرح امریکیوں کے ہاں با اثر نہیں ہے۔ اس شخص نے اپنی سفارتکاری کا آغاز 1978 سے کیا تھا جب انھوں نے امریکی کانگریس کو ترغیب دلائی کہ وہ آل سعود کے ساتھ ایف پندرہ لڑاکا طیاروں کی فروخت کا بل منظور کرے اور یہ بل منظور ہوا۔
بندر نے اپنی سفارتکاری کے دوران 5 امریکی صدور، 10 وزرائے خارجہ، 11 نیشنل سیکورٹی کے مشیروں اور کانگریس کے 16 اجلاسوں اور سینکڑوں امریکی سیاستدانوں کے ساتھ رابطہ برقرار کیا۔
شہزادہ بندر بن سلطان کے تعلقات امریکی صدور میں جارج بش (father) اور جارج واکر بش (son) سے قریبی رابطہ برقرار کیا یہاں تک کہ انہیں Bandar Bush کہا جانے لگا۔ جیمز بیکر، ڈک چینی، جنرل کالین پاول اور بش انتظامیہ کے اعلی اہلکاروں سے ان کا رابطہ سفارتی حدود سے کہیں زیادہ قریبی تھا۔
بندر بش اپنی سفارت کے دوران بغیر کسی رکاوٹ کے وائٹ ہاؤس میں آیا جایا کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے عرب سفیر تھے جو حتی امریکی وزارت خارجہ کی سیکورٹی تفصیلات تک رسائی رکھتے تھے۔ اور امریکیوں نے ان کو یہ سہولت اس لئے دی تھی کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے لئے خود امریکیوں سے بھی زیادہ مخلص تھے۔ ورنہ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکی کسی پر اعتماد نہیں کیا کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment