Tuesday, 24 September 2013

دہشت گردوں نے ترکی کے کیمیاوی ہتھیاروں سے اسد فورسز کا قتل عام کیا

دہشت گردوں نے ترکی کے کیمیاوی ہتھیاروں سے اسد فورسز کا قتل عام کیا
رپورٹ کے مطابق ان دنوں یہ موضوع شدت سے زیر بحث ہے کہ شام میں کیمیاوی ہتھیار کس نے استعمال کئے ہیں؟ امریکہ اور ترکی سمیت تکفیری دہشتگردوں کے علاقائی حامی شام پر الزام لگا رہے ہیں تاہم ایک ترک روزنامہ نویس نے دل ہلانے والے انکشافات کرکے علاقے کے مبہم ماحول میں تہلکہ مچایا ہے۔
اس اخبار نویس کے انکشافات ترکی سے دہشت گردوں کے لئے بھجوائے گئے کیمیاوی ہتھیاروں کے بارے میں حقائق کو آشکار کرتے ہیں۔
ترک اخبار "طرف" نے کیمیاوی ہتھیاروں کے شام سے ترکی بھجوا کر القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد جماعتوں کے حوالے کرنے کی خبر نیز اس مسئلے میں پیش کردہ پٹیشن کی تفصیل اپنے پہلے صفحے پر نشر کی ہے۔
فارس خبر ایجنسی کے نامہ نگار نے اس موضوع کی تفصیل جاننے کے لئے اس اخبار کے ایک رکن "فرات آلکاچ" سے بات چیت کی ہے۔
ترک حکومت نے مئی میں سیرین گیس کے ملزمین کو رہا کردیا تھا
آلکاچ نے ان گیار افراد کی گرفتاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد کو گذشتہ مہینوں ترکی میں گرفتار کیا گیا اور ان سے سیرین گیس برآمد کرلی۔ حکومت نے ان افراد کو سوائے ایک شامی کے، رہا کردیا۔ شامی باشندے کا نام ہیثم قصاب تھا۔
شام میں برسرپیکار افراد کا ترک اداروں سے تعلق
ترک اخبار نویس نے کہا: قصاب اور اس کے ساتھیوں کے پاس دو کلوگرام سیرین گیس تھی لیکن ترک حکومت نے کہا کہ وہ سیرین گیس نہ تھی بلکہ اینٹی فریز مادہ تھا۔ اور پھر قصاب بھی رہا کردیا گیا۔
سیرین گیس منتقل کرنے والوں کا ترک انٹیلجنس اداروں سے تعلق ہے
آلکاچ نے کہا: حکومت کو یقینا ان حقائق سے آگاہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ خفیہ ادارے ان افراد کی نگرانی کررہے تھے اور یہ افراد بڑي آسانی سے ترکی ـ شام سرحدوں پر نقل وحرکت کرتے تھے۔ اور دلچسپ امر یہ کہ ان افراد کے سلسلے ميں پیش کردہ پٹیشن پر جو فیصلہ ہوا ہے اس میں قرار دیا گیا ہے کہ ان افراد کا تعاقب نہ کیا جائے۔
ہماری اطلاعات کے مطابق یہ افراد ترک انٹیلجنس کے لئے کام کرتے ہیں۔ ان افراد نے کیمیاوی ہتھیار تیارکرنے کے لئے پورے ترکی سے ضروری مواد اکٹھا کرلیا ہے اور قصاب نے اس مواد کو شام پہنچاکر دہشت گردوں کے سپرد کیا ہے۔ پہلے 5 افراد جنہیں رہا کیا جاتا ہے، دہشت گردوں کو ہتھیار فراہم کرنے کے الزام میں مطلوب تھے اور ان پر مقدمہ چلایا جارہا تھا۔ لیکن انہیں اسی حال میں رہا کیا گیا اور رہائی کے بعد وہ جبہۃ النصرہ میں شامل ہوئے۔

No comments:

Post a Comment

Subscribe via email